مسلم انڈیا : کاروباری مہم جوئی کا فروغ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/04/24

مسلم انڈیا : کاروباری مہم جوئی کا فروغ

muslim-india shahid sayed
ہمارے ایک بہت ہی عزیز دوست ہیں شاہد سید۔ ہم دونوں نے کوئی اٹھارہ انیس سال قبل سول انجینیرنگ میں گرائجویشن کیا تھا۔ ہم نے حیدرآباد سے اور شاہد نے ممبئی سے۔ قلمی دوستی کا وہ بھی کیا دَور تھا کہ خطوط کے ذریعے نصف ملاقاتیں کسی بھرپور ملاقات کا تصور دیتی تھیں۔ پھر ایک مرتبہ ممبئی میں یادگار دو بدو ملاقات بھی رہی۔
ہرچند کہ شاہد اب ممبئی سے اٹلانٹا (جارجیا) شفٹ ہو چکے ہیں مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ : پھر بھی دل ہے ہندوستانی
۔۔۔ لہذا ان کا دل ہر لمحہ ہندوستان کے لیے بالعموم اور ہندوستانی نوجوان مسلم قوم کے لئے بالخصوص دھڑکتا رہتا ہے۔

جو شخص اپنے وطن معاشرہ تہذیب و ثقافت سے دور ہو جائے تو اپنی شناخت کے بحران سے بھی گزرتا ہے ، انہی احساسات کو شاہد نے ایک مختصر ڈاکیومنٹری فلم دوسرا کنارہ کے ذریعے بڑی کامیابی سے پیش کیا اور جسے اٹلانٹا انڈو-امریکن فیسٹیول میں بھی دکھایا گیا تھا۔

شاہد نے اپنی ڈائرکشن میں بنی اس فلم کے لئے ایک گیت بھی تحریر کیا :
زندگی عمر بھر یونہی تجھ سے وفا کی ہے
بس یہی ، ہاں اک یہ ہی ہم نے خطا کی ہے


فی الوقت شاہد کے متعلق ہمیں ایک دوسرے موضوع پر گفتگو کرنا ہے۔
ہندوستان میں تمدنی ترقی کے مرکزی دھارے سے ہندوستان کی نوجوان مسلم نسل کو کس طرح جڑنا چاہئے ؟؟
ممبئی کے مہارشٹرا کالج میں 'Threshold India 2009' کے عنوان سے جنوری-2009 میں شاہد کی سرکردگی میں ایک اجلاس کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی تفصیل آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔


آج سے بیس سال پہلے ہندوستانی مسلمانوں کے نزدیک جو مسائل درپیش تھے مثلاً : غربت ، فرقہ واریت ، روزگار کے عدم مواقع ، ناخواندگی ، تحفظات ، دوسرے درجہ کے شہری ، دہشت گردی ، کرپشن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
بالکلیہ یہی مسائل بیس سال بعد آج کے نوجوان طلباء نے شاہد کے روبرو گنائے۔
پھر تجارت اور کاروباری مہم جوئی کے موضوع پر طویل مذاکرہ ہوا۔ اس کے بعد طلباء کے آٹھ گروپ بنا کر ، ہر گروپ کو ایک ہزار روپے دئے گئے کہ وہ ایک ہفتہ میں اس رقم سے کوئی بھی کسی بھی قسم کا کاروبار شروع کریں ، منافع کمائیں اور پھر اس معین مدت کے بعد کے نتائج سے آگاہ کریں۔

ہر چند کہ آٹھوں گروپ میں سے دو کو فتحیاب قرار دیا گیا مگر ہر گروپ نے اس مہم میں نمایاں اور خاصی نفع مند کامیابی حاصل کی تھی۔

نئی نسل کا جوش و جذبہ

انصاری نظرین نے کہا : ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم ایسا کر دکھائیں گے۔ ہمیں ایسا موقع دینے کے لئے بےحد شکریہ۔
رخسار خان کہتی ہیں : ہم نے اپنی زندگی میں آج سے پہلے خود کو اتنا پُراعتماد محسوس نہیں کیا تھا۔ منافع کی خوشبو اور لذت سے ہمیں اپنی کوششوں کا یقین ہوا ہے اور ہم اسے جاری رکھیں گے۔
سمین مشتاق نے یوں جذبات ظاہر کئے : اس مہم نے ہمیں ڈپلومیسی سکھائی ہے اور اپنے مقاصد کو ترجیح دینا سکھایا ، ہم نے ان لوگوں سے بھی بات کی جن سے عام اوقات میں ہم بات کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ اپنے مقصد کو پانے کے لئے ہم نے کوئی موقع نہیں گنوایا۔
فرحت انصاری بولتی ہیں : اس قسم کا موقع دینے کا بہت بہت شکریہ سر۔ میری ماں کو مجھ پر بہت فخر ہوا ہے اور ہمارے خاندان کے ہر فرد نے ہماری کوششوں کو سراہا ہے۔

شاہد کی بےمثال حکمت عملی نے ان نفسیاتی حدوں کو توڑنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس میں ہند کی مسلم قوم ایک طویل عرصہ سے گرفتار رہی ہے۔
شاہد ڈئر !! مجھے تم پر فخر ہے !!!

یہ ہے انڈیا میری جان !!
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

1 تبصرہ:

  1. میں آپ کی تحاریر پڑتا رہتا ہوں ۔ آپ اچھی باتیں لکھتے ہیں ۔ تبصرے کی بعض اوقات ضرورت نہیں ہوتی اور کبھی وقت کی کمی کے احساس سے نہیں کرتا ۔ وجہ بلاگسپاٹ پر تبصرہ لکھنے اور شائع کرنے کے عمل کا طویل ہونا ہے

    خیر ۔ بات شاہد صاحب کی ۔ بڑے محرک شخص ہین ۔ شاہد صاحب اٹلانٹا کب گئے ؟ اور کیا اُنہوں نے وہاں مزید تعلیم حاصل کی ؟ اگر ہاں تو کونسی جامعہ میں ۔ کسی مضمون میں اور کون سے سال ؟ آج کل اٹلانٹا میں کہاں رہتے ہیں ؟

    اتنے سارے سوالات کیلئے معذرت

    جواب دیںحذف کریں