اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ ۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2008/03/27

اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ ۔۔۔

صاحبان ! قدردان ‫!!

آج پھر ہمارے دل میں اک درد سا جاگ اٹھا ہے۔ درد بھی وہ جو وقفے وقفے سے اٹھا کرتا ہے ، چین سکون لینے نہیں دیتا۔ مطالعہ کرتے کرتے گم سم سے بیٹھ جاتے ہیں تو ہمارا چند سالہ بچہ آکر پوچھتا ہے کہ ابو کیا ہوا؟

کچھ نہیں ہوا بیٹا ! جو چیز روز روز ہونے لگے اس کی اہمیت بھلا کہاں رہ جائے؟ جس زبان میں تم بات کرتے ہو، جس زبان میں تم نے بولنا سیکھا ، جس زبان میں تم نے لوگوں کی باتوں کو سمجھنا شروع کیا ، کل ایسا نہ کرنا کہ اوروں کی طرح تم بھی اسے دھوکہ دے جانا۔

ہمارے ماں باپ کو ایسا کہنے کا موقع تو نہ ملا تھا۔ ہمارے ماں باپ نے تو اِس زبان کو سیکھنے کی جانب توجہ بھی نہیں دلائی۔ ہمارے ماں باپ نے نہیں کہا کہ دیکھو بیٹا ! یہ تمہاری زبان ہے ، اس کی حفاظت ، اس کی دیکھ ریکھ اس کی ترقی و ترویج تمہارا فرض ہے۔
انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا کبھی۔ کیا تو بس صرف یہ کہ ہمارے لئے اس زبان میں چھوٹی چھوٹی کتابیں منگوائی ، ماہانہ رسائل منگوائے ، اخبارات کے بچوں کے گوشہ کے تراشے کاٹ کر دئے۔
پھر کیا ہوا ؟
تھوڑا بڑے ہوئے تو یہ دیکھ کر خوش ہوئے کہ ہمارے ہاں کی فلموں کی ، ہمارے ہاں کے ٹی۔وی سیرئیلز کی زبان بھی وہی ہے جو ہماری اپنی بولی ہے۔ بڑے خوش ہوا کئے کہ ہماری زبان سارے بھارت کی زبان ہے۔

ذرا بڑے ہوئے تو پہلا دھچکہ لگا۔ معلوم ہوا کہ وہ ہماری زبان نہیں بلکہ کوئی اور زبان ہے جو ہر فلم کے سرٹیفیکٹ میں بتائی جاتی ہے۔ وہ تو کوئی بڑا دل گردے والا تھا ناصر حسین جس نے اپنی ہر فلم کا سرٹیفیکٹ اپنی ہی زبان میں طلب کیا۔ افسوس کہ یہ اکلوتا چراغ بھی بجھ گیا چند سال قبل۔

برسہا برس سے غزلوں کے آڈیو کیسٹ اور سی۔ڈی کی مانگ اور وہ بھی زبردست مانگ رہی۔ غزل سننا اعلیٰ طبقات میں فیشن شمار ہونے لگا۔ کس کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں بننے والا سب سے پہلا وی۔سی۔ڈی بھی ہماری ہی زبان کی غزلوں پر مشتمل تھا۔ پنکج ادھاس کا غزل البم "شگوفہ" جو 1987ء میں ریلیز ہوا تھا۔ غزل گلوکار تو ہماری زبان کی غزلیں گا گا کر ایسے کروڑپتی بن گئے کہ کسی غزل سنگر سے یہ پوچھنے کی کسی کو ہمت ہی نہ رہی کہ "کون بنے گا کروڑپتی" ؟

طالب علمی کے اپنے زمانے میں ہم نے بھی غزلوں کے لاتعداد کیسٹ خریدے تھے۔ شاک تو اسی وقت لگا کرتا تھا جب کیسٹ کے "اِن لے کارڈ" پر نام اور فہرست کو غیر زبان میں پڑھا کرتے۔ ہماری زبان کا نام و نشان تک نہ ہوتا حالانکہ گانے والے نے کیسٹ میں ہماری ہی زبان کی غزلیں گائی ہوتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہماری زبان ہمارے ملک کی دوسری بڑی زبان ہے۔ مگر بیٹا ! کیا کبھی تم نے کسی اردو اخبار کی تعداد اشاعت کا کالم دیکھا ؟ ہمارا کوئی روزنامہ بمشکل ہی ایک لاکھ سے زائد چھپتا ہوگا ‫!

بجھتے ہوئے چراغ میں تیل کیوں نہیں ڈالتے ہم لوگ؟
نیم جاں مریض کا علاج کیوں نہیں کراتے ہم لوگ؟
اپنے فرض اپنی ذمہ داری کا احساس کیوں نہیں کرتے ہم لوگ؟
ہم شائد بڑی بےحس سی قوم بن چکے ہیں بیٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں تم بھی اسی بےحسی کا حصہ تو نہیں بننے جا رہے؟؟
بیٹے ۔۔۔ اٹھو بیٹے ، جواب دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے دیکھا میرے بیٹے کا سر میرے شانے سے آ لگا تھا
میرا بیٹا غالباَ سو چکا تھا
غالباَ آج کے ہندوستان میں "اردو" زبان کی طرح ‫!!

اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ
اک دل کا چین تھا کہ سدا ڈھونڈتے رہے ‫!

3 تبصرے:

  1. جو قومیں اپنی پہچان کی رکھوالی نہیں کرتیں وہ منتشر ہو جاتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. میری مندرجہ ذیل تحریر آپ سے معلومات کی طلبگار ہے
    http://iftikharajmal.urdutech.com/?p=1192

    جواب دیںحذف کریں
  3. میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ آپ کے اور میرے خیالات میں بہت مطابقت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں